* وقت ، میں جس کے انتظار میں تھا *
غزل
وقت ، میں جس کے انتظار میں تھا
وہ کہاں میرے اختیار میں تھا
رہ گئے جب سزا کے بس کچھ دن
تب یہ جانا مزہ فرار میں تھا
سچ کی چپ میں تھی مصلحت ، ورنہ
جھوٹ کا شور کس شمار میں تھا
مہرباں ہو گیا اچانک وہ
کیا پتہ مجھ کو ، کیا بہار میں تھا
یہ الگ بات میں پہنچ نہ سکا
یہ مگر ہے کہ میں قطار میں تھا
ندّی جب اتری خشک میداں میں
تب کھلا لطف انتشار میں تھا
*** |