* آنکھوں سے اگر جھا نکے اگر درد ذرا ب *
غزل
آنکھوں سے اگر جھا نکے اگر درد ذرا بھی
انفاس کا کیوں توڑ نہ دوں بندِ قبا بھی
اشجار ہرے ہوں تو بدن بھی ترا مہکے
موسم کی طرح بدلے میری آب و ہوا بھی
رنگوں کا اثاثہ ہے نہ خوشبوئوں کی میراث
کیا نذر کریں گے ہم اگر کوئی ملا بھی
اب خیمئہ امکاں پہ بھی شب خون کا ڈر ہے
چھن جائے نہ سر سے مرے خوابوں کی ردا بھی
عارض پہ رہیں تیرے تب و تاب ہمیشہ
بجھتا ہے تو بجھ جائے میرے دل کا دیا بھی
ان ہاتھوں میں خنجر ہے مرے نام کا ٗ جن کا
اعجازِ مسیحائی بھی ہے رنگ وفا بھی
اے کاش کبھی جھانک بھی لیتا میرے اندر
اک شخص جو کہنے مرے ساتھ رہا بھی
****
|