* میں گنجہ تھا مگر اتنا نہیں تھا *
تیرے بارے میں جب سوچا نہیں تھا
میں گنجہ تھا مگر اتنا نہیں تھا
آج لڑکی نے اک لڑکے کو پیٹا
کہا اُس سےکہ کیوں چھیڑا نہِں تھا
مرے دامن کے دھبے گِن رہا تھا
اسکے کمرے میں آئینہ نہیں تھا
نہ جہیز اور جوڑا کچھہ لیا وہ
وہ کڑکا تھا مگر لُچّہ نہیں تھا
جو دشمن تھا رہا دشمن تو میرا
جو میرا دوست تھا میرا نہیں تھا
ہے مہنگائی نے مجھہ کو زندہ رکھا
میں پی جاتا زہر سستا نہیں تھا
اُسے بس جی حضوری ہی نہ آئی
وہ بھوکا تھا مگر ننگا نہیں تھا
مجھکو بیوی لگی سونم سے بہتر
میں اندھا تھا مگر اتنا نہیں تھا
علیم خان فلکی ۔ جدہ
****** |