* خیال ِ یار میں یوں زندگی سنوار چلے *
نذر فیض احمد فیض
خیال ِ یار میں یوں زندگی سنوار چلے
وہی تھا عکس ترا جس کو ہم نکھار چلے
کہیں سرود, کہیں نغمہ , دل کو شاد کیا
کہیں کہیں شب ہجراں میں خود کو مار چلے
ستم یہ ہے کہ یہاں موت بھی نہیں آتی
دعا کرو کہ کسی روز اس کا وار چلے
چلے وہ ساتھ ہماری طرح کا غم ہو جسے
سفر میں یوں تو مرے ساتھ بے شمار چلے
بجھے ہوئے ہیں چراغ اور شب ہے طولانی
یہ ناؤ ہم کو نجانے کہاںاتار چلے
علی بابا تاج ـ کوئٹہ
فیض احمد فیض کی یاد میں منعقدہ طرحی مشاعرہ میں پڑھی گئی غزل
**************************** |