* کچھ عجب نہیں کہتے *
علی بابا تاج
کچھ عجب نہیں کہتے
لوگ جب بھی کہتے ہیں
یہ طریق دانش ہے
بات اب سے پہلے کی
کچھ نشانیاں ایسی
جن پہ داستانیں ہیں
نقش ہیں دماغوں پہ
جھوٹ، مکر اور دھوکہ
رنج کی سبھی وجہیں
لوگ کہہ گئے آخر
راستے ہوں جب معلوم
لوگ کیوں بھٹکتے ہیں
ہر جبیں پہ لکھا ہے
کون کتنا اچھا ہے
ہم کو بات سب معلوم
چیں، جییں پہ آئے کیوں
پھر یہی تو کہتے ہیں
کچھ عجب نہیں کہتے
لوگ جب بھی کہتے ہیں
یہ طریق دانش ہے
سینکڑوں برس سے ہے
کون کتنے پانی میں
کب کرے ہے یہ نیکی
جھوٹ، مکر اور دھوکہ
یہ بھی چلتے آئے ہیں
سلسلے ہیں پرکھوں کے
اس قدر کہاں آساں
چھوڑ دیں سبھی یکدم
ہاں مگر یہ کوشش ہو
جھوٹ بھی نہیں کہنا
مکر بھی نہیں کرنا
اور کسی بھی قیمت پہ
ہاتھ بھی نہیں کرنا
کچھ عجب نہیں کرنا
لوگ جب بھی کہتے ہیں
یہ طریق دانش ہے
سینکڑوں برس سے ہے
ہم کو بات سب معلوم
کون کتنا اچھا ہے
ہر جبیں پہ لکھا ہے
**************** |