* جھلملاتے ستاروں میں گھری، *
مکالمہ
علی بابا تاج
رات اپنی،
جھلملاتے ستاروں میں گھری،
آنکھ موندے،
سوئی ہوئی خاموش ہے،
کوئی کب تک،
بھلا ٹھہرے گا ویرانے میں؟
کوئی آواز،
کہیںسے چٹخ کے آئے گی،
کبھی تو،
رات مہتابی نگاہوں کو منور کرنے،
کیا پتہ کب؟
روشنی سے دُھل جائے گا منظر،
وہ منظر،
جو تاریک صدائوں میں رہا ہے ......
*************** |