* منزل قریب آئے کوئی راستہ ملے *
منزل قریب آئے کوئی راستہ ملے
دشتِ جنوں میں ساتھ اگر آپ کا ملے
ہم نے تو آپ کو مانگا ہے آپ سے
لوگوں کو جو ملے وہ بنامِ خدا ملے
اس بار وصلِ یار بھی مرنے کے بعد ہو
اس بار ہم کو جرم سے پہلے سزا ملے
کیسے سمیٹ پاتے وفاؤں کے بوجھ کو
صد شکر ہم کو دوست سبھی بے وفا ملے
خاموشیوں کی زد میں ہے الہام کی اڑان
وہ لب ہلیں تو میرے ہنر کو صدا ملے
وہ حسنِ بے مثال اگر ساتھ ہو حسن
پھر چاہے عمر بھر نہ کوئی دوسرا ملے
|