* آج کل دھیان کس اور نہیں پڑتا ہے *
آج کل دھیان کس اور نہیں پڑتا ہے
پَیر دھرتا ہوں کہیں اور کہیں پڑتا ہے
تو نے دیکھا ہی نہیں آنکھ اٹھا کر اس کو
تیرے رستے میں کوئی خاک نشیں پڑتا ہے
مستحق ہونے کا دعویٰ تو سبھی کرتے ہیں
کس کی آغوش میں دیکھیں وہ نگیں پڑتا ہے
مجھ کو تو راہ نکلتی نظر آتی ہے کوئی
بل نہیں یہ جو سرِ سطحِ جبیں پڑتا ہے
تم نے اچھا ہی کیا ہم سے کنارا کرکے
ایسی مشکل میں بھلا کون حسیں پڑتا ہے
ہنسنا رونا، کبھی دیواروں سے باتیں کرنا
دل کو بہلانا تو اے جانِ حزیں ، پڑتا ہے
اسی بستی کا ہے باشندہ علی یاسر بھی
بے یقینی کا جہاں نام یقیں پڑتا ہے
|