* بے امتیاز ،فکر و نظر، دیکھتے رہے *
غزل
بے امتیاز ،فکر و نظر، دیکھتے رہے
تازندگی وہ تازہ خبر دیکھتے رہے
رو کر کیا جہالت قومی کا تذکرہ
ہنس کر فساد علم و ہنر دیکھتے رہے
تعبیر ان کی کیا ہے جہانِ خراب میں
جو لوگ خواب خوف وخطر دیکھتے رہے
دونوں کا رنگ ایک تھا اے زلف انقلاب
ہم اپنی شام تیری سحر دیکھتے رہے
کیا حزم واحتیاط حماقت تھی آپ کی
ہر خیز، میں وہ ،جلوہ شر، دیکھتے رہے
تھا ، ماہ ،نو، کو دیکھنے کا شوق انہیں مگر
نکلا، ہلال، ادھر وہ ادھر دیکھتے رہے
یہ واقف آرٹ ، کیا ہے؟ سمجھ میں نہ آسکا
احساں جناب کا ہے اگر دیکھتے رہے
+++
|