* مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھو *
غزل
٭……علّامہ اقبال
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظّارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے
واعظ کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مُراد!
دُنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
شبنم کی طرح پھولوں پہ روا اور چمن سے چل
اس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے
سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
جینا وہ کیا ہے جو ہو نفسِ غیر پر مدار
شہرت کی زندگی کا بھروسہ بھی چھوڑ دے
واعظ ثبوت لائے، جو مے کے جواز میں
اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
&&&&&& |