* خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری اب *
غزل
٭……علّامہ اقبال
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خُدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
مقامِ گفتگو کیا ہے ، اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی ہنوزِ نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے
نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں
نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کیا ہے
نوائے صبح گاہی نے جگر خوں کردیا میرا
خُدایا جس خطا کی یہ سزا ہے وہ خطا کیا ہے
|