* مکاں خموش تھے لیکن چراغ جلتے تھے *
کہمن
علامہ یونس احمر
المیہ
منظر:
مکاں خموش تھے لیکن چراغ جلتے تھے
اُداس رات تھی اور تیرگی قیامت کی
چھتیں ٹپکتی تھیں برسات کا زمانہ تھا
ہر ایک سمت مسلسل فضا تھی دہشت کی
شباب بیوہ کا تھا بے بسی کے عالم میں
چھلک رہی تھی نظر سے شراب حسرت کی
حسین ننھا ساگودی میں ایک بچہ تھا
نہ جانے کون سی اللہ کی مشیّت تھی
کہمن:
یہ المیہ ہے زمانے کے چاک داماں کا
بشر کے صبر کا یوں امتحان ہوتا ہے
ہے اُس کے ساتھ خدا، گر نہیں کوئی اس کا
عجیب رنگِ رخِ داستان ہوتا ہے
*** |