غزل
شروع ہے مرحلہ مہرو وفا کا
مسلسل سلسلہ قہرو بلا کا
وہ چہرہ دُھند ہوتا جا رہا ہی
جو پرتو تھا کبھی نور و ضیاٰ کا
کسے درپیش خونی کربلا ہی
فضا میں ورد ہے رجز و ثنا کا
ہمیں اے عشق تُو نے مار ڈالا
ہمی تو درس دیتے تھے وفا کا
ابھی کمسن ہو اٹھلائو ابھی تم
ابھی دیکھا نہیں چہرے جفا کا
الطاف فیرؔوز