ریگ زارِ کہکشاں میں چہل قدمی کے دوران ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بہت محدود پیمانے بنا ڈالے ہیں انساں نے
خیالوں پر کڑے پہرے لگا کے
سوچنا جنت
نہیں ممکن
اُدھر سے اس طرف آو
تو حیرت کو بوسیدہ جسم میں ہی چھوڑتے آنا
کہ اس دُنیا کے پیمانے تماری سوچ کی وسعت سے باہر ہیں
قناعت کفر ہے اس جپاں میں رہنے والوں کو
وہ سارے فلسفے اور من گھڑت ساری وہ تاویلیں
جو واعظ مسندِارشاد سے تُم کو سُناتا تھا
اُنہیں کمرے میں رکھے کوڑا داں میں پھینکتے آنا
نہیں ہے ربط کو ئی اس جہاں سے ایسے واعظوں کا
یہاں پر ریگ زارِ کہکشاں کے اُس طرف بھی کہکشائیں ہیں
وہاں تو تُم اندھیرون میں بھٹک کر راستہ پانے کی کوشش کو جوازِ زیست کہتے ہو
یہاں پر ریگ زارِکہکشاں میں تو سرابِ روشنی سے باہر آنے کو
اندھیروں سے اٹی کالی گھپائیں راستوں کی اک نشانی ہیں
یہاں پر روشنی میں نہ بھٹکنا کامیابی ہے
اُدھر سے اس طرف آو تو حیرت کو بوسیدہ جسم میں ہی چھوڑتے آنا
ہزاروں میل نوری سال دوری پر پلک چھپکے میں جانا ہو تو حیرت بوجھ بنتی ہے۔