غزل
مجھ کو آتے ہیں نظر دھڑیہاں دیواروں میں
نہیں دکھتا ہے مگر سر کوئی دستاروں میں
سُرخ آنکھوں کا بھی اک اپنا فسوں ہوتا ہے
بیٹھ کر دیکھ کسی روز تُو مہ خواروں میں
کیا عجب دور ہے کے کو ئی طلبگار نہیں
ہرجگہ بکنے کو یوسف گئے بازاروں میں
آتشِ عشق حوادث سے ہوئی کچھ مدہم
اور کچھ بات نہیں ہیر سی دلداروں میں
ہم جوساحل پہ ہیں چپ چاپ کھڑے تو نہ سمجھ
ہم نہیں اُترے کبھی بپھری ہوئی لہروں میں
نہیں فرصت کے کبھی تیرے متعلق سوچیں
زندگی تھے کبھی ہم تیرے طلبگاروں میں
ہم کو دشمن کی نگاہوں سے نہ دیکھو ہمدم
نام آتا تھا کبھی اپنا تیرے پیاروں میں
الطاف فیرؔ وز