* شاعر و کیا نہیں لہو ہے پاس *
کہمن
امان اللہ امان
کارخانہ
منظر:
شاعر و کیا نہیں لہو ہے پاس
بجھ گئی شمع صفحہ قرطاس
شعر میں آگ نہ شعلہ فن میں
کیا ہوا انگلیوں کے گلخن میں
تیرگی سے بھرا جہان کا باغ
مانگتا ہے لہو جگر جہاں کا چراغ
کیوں شکستہ قلم کا بربط ہے
شیطنت دہر پہ مسلط ہے
کہمن:
شعر و شاعر مشاعرہ کیا ہے
تیغ ہے اور فرس ہے غازی کا
مرض خلق آدمی کے لئے
کارخانہ ہے دوا سازی کا
٭٭٭
|