* مطمئن مجھ کو ہوائوں نے کہاں رہنے د *
غزل
مطمئن مجھ کو ہوائوں نے کہاں رہنے دیا
بے در و دیوار ، بے چھت کا مکاں رہنے دیا
یوں تو اک چھوٹی سی اُس کی ضد تھی وجہِ اختلاف
آج تک اِس زخم کو اُس نے جواں رہنے دیا
اپنے غم میں گھٹ کے مرجانے کا اُس کو شوق تھا
کھڑکیاں سب بند کرڈالیں، دھواں رہنے دیا
ناموافق اس قدر حالات تھے کہ مدتوں
میں نے اپنے خول میں خود کو نہاں رہنے دیا
چہرۂ خاموش پر الفاظ اُس نے جڑ دیئے
میری مجبوری نے مجھ کو بے زباں رہنے دیا
فیصلے سب اُس نے کرڈالے مری تقدیر کے
اور مجھ کو گومگو کے درمیاں رہنے دیا
کوششِ بے برگ و بر کا کچھ تو اندازہ لگے
میں نے چہرے پر غبارِ کارواں رہنے دیا
(امر اعزازی (غلام جیلانی
1/7-A/7, J.K.Ghosh Road, Belgachia
Kolkata-700037
Mob: 9331988789
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|