* آج پھر پر ملال ہیں آنکھیں *
آج پھر پر ملال ہیں آنکھیں
جانے کس غم سے لال ہیں آنکھیں
چاہتیں بھی مسافتیں ہیں کیا
کیوں تھکن سے نڈھال ہیں آنکھیں
دیکھتا ہوں اسے تو مرتا ہوں
میری جاں کا وبال ہیں آنکھیں
لب و رُخ مظہرِ کمالِ حسن
سب سے بڑھ کر کمال ہیں آنکھیں
عارض و لب کے مرغزاروں میں
سہمے سہمے غزال ہیں آنکھیں
بات کرتی ہیں نرم لہجے میں
کیسی شیریں مقال ہیں آنکھیں
دام میں ہی نہ عاصم آجانا
پھینکتی دل پہ جال ہیں آنکھیں
|