* تابِ جلوہ بھی تو ہو وہ سوئے بام آیا *
تابِ جلوہ بھی تو ہو وہ سوئے بام آیا تو کیا
چشم موسیٰ کے لئے گر عشقِ تشنہ کام آیا توکیا
دعائے دل سمجھ لیں گے اگر چاہیں گے وہ
میرے ہونٹوں تک سوال نا تمام آیا تو کیا
ظرفِ سائل بھی بدل اے رحمتِ سائل نواز
مے سے پُر ان کانپتے ہاتھوں میں جام آیا تو کیا
پُر ہے تیرے ذکر سے اپنی حدیث زندگی
اس میں بھولے سے کہیں دل کا بھی نام آیا تو کیا
خونِ دل ضائع نہ ہو مجھ کو بس اتنی فکر ہے
اپنے کام آیا تو کیا، غیروں کے کام آیا تو کیا
ہیں ابھی خاکسترِ ملا میں کچھ چنگاڑیاں
شعلہ ہستی قربِ اختتام آیا تو کیا
٭٭٭
|