* ہم نے بھی کی تھیں کوششیں، ہم نہ تمہ *
ہم نے بھی کی تھیں کوششیں، ہم نہ تمہیں بھلا سکے
کوئی کمی ہمیں میں تھی یا د تمہیں نہ آسکے
زیست کی راحتوں میں بھی غم نہ ترا بھُلا سکے
لب سے ہنسے ہزار بار دل سے نہ مسکرا سکے
قفل سا اک زباں پہ تھا آنکھ میںکچھ نمی سی تھی
ہوش نہیں کہ دل کا بھید کہ ہ گئے یا چھپا سکے
اپنیہی شوق کی خطا اپنی ہی آنکھ کا قصور
وہ تو اٹھا چکا نقاب ہم نہ نظر اٹھا سکے
٭٭٭
|