* کب کرے کس سے کرے عشق کا پیماں کوئی *
کب کرے کس سے کرے عشق کا پیماں کوئی
میں نے مدت سے نہیں دیکھا ہے انساں کوئی
دل بہلتا نہیں پھیلے ہوئے ویرانوں میں
کوئی لے آئے, کسی شہر سے جاناں کوئی
زندگی, تیری عنائت پہ نچھاور کر دی
پھر بھی رہتا ہے تو بتلا ترا احساں کوئی؟
کوئی پاگل، کوئی وحشی کبھی دیکھا کب تھا
کیسے ہوتا نہ مرے روپ سے حیراں کوئی
جتنی یادیں ہیں تری، ساتھ لئے پھرتا ہوں
اب مرے رخت میں باقی نہیں ساماں کوئی
کیسے اترے گی تھکن جسم کی پھر شام کے بعد
شام اتری نہ ہو جس شہر میں آساں کوئی
|