ارشد مینا نگری
جشن بھی ماتم بھی
رخِ تاباں بھی ، چشمِ پُرنم بھی؟
عید کیا جشن بھی ہے ، ماتم بھی؟
دیکھ کے اپنے روتے بچوں کو
بے تحاشہ بلک اٹھی ممتا
ہو گیا فاقہ عید کے دن بھی
چشمِ دل سے چھلک پڑی ممتا
بھڑکا شعلہ بھی ، ٹپکی شبنم بھی
عید کیا جشن بھی ہے ، ماتم بھی؟
ایک سادہ لباس کی خاطر
ڈھونڈتے ہیں غریب امیروں کو
بے قراری سے مل تو جاتا ہے
چین ، افلاس کے اسیروں کو
زخم بھی اس میں پایا مرہم بھی
عید کیا جشن بھی ہے ، ماتم بھی؟
اہلِ دولت کرے ہیں رنگ رلیاں
جیتے جی جیسے مر گئے نادار
مسکراہٹ بھی رو پڑی ان کی
جانے کیا جرم کر گئے نادار
آبِ ہستی بھی موت کا سم بھی
عید کیا جشن بھی ہے ، ماتم بھی؟
کر کے مجبور ، دلبری کرنا
یہ تنفر ہے یہ تو پیار نہیں
بے بسی بڑھ گئی غریبوں کی
کیا امیر اس کے ذمہ دار نہیں
یہ ستمگر بھی اور ہمدم بھی
عید کیا جشن بھی ہے ، ماتم بھی؟
شادماں کوئی اشکبار کوئی
میرے مولا یہ امتیاز ہے کیا
دم بہ خود ہو کے رہ گئے ارشدؔ
کچھ تو سمجھا کہ اس میں راز ہے کیا
خوش لباسی بھی غم کا عالم بھی
عید کیا جشن بھی ہے ، ماتم بھی؟
++++