ارشد مینا نگری
عید بھی اشکبار ہے دیکھو
کیا فسردہ بہار ہے دیکھو
ضبط بے اختیار ہے دیکھو
عید بھی اشکبار ہے دیکھو
کیا ستم ہے حبیب چہروں پر
گل بداماں ، خطیب چہروں پر
ہے اداسی عجیب ، چہروں پر
اضطرابی غبار ہے دیکھو
عید بھی اشکبار ہے دیکھو
بم دھماکوں سے ایسے دل ٹوٹے
جیسے پتھر سے آئینے پھوٹے دامنِ صبر ہاتھ سے چھوٹے
متحد ، انتشار ہے دیکھو
عید بھی اشکبار ہے دیکھو
کوئی ملتا نہیں ہے مل کر بھی
کوئی کھلتا نہیں ہے کھل کر بھی
چاک دامن ہوئے ہیں سل کر بھی
چین بھی بیقرار ہے دیکھو
عید بھی اشکبار ہے دیکھو
اب کے ارشدؔ عجیب ہے موسم
شعلہ زاری میں پھول پر شبنم
زخم کا زخم ہی بنا مرہم
غم کا غم ، غمگسار ہے دیکھو
عید بھی اشکبار ہے دیکھو
+++