ارشد مینا نگری
عید ہے آج
نفرت کو بھی پیار بنا لے عید ہے آج
دشمن کو بھی یار بنا لے عید ہے آج
دل میں اپنے دل رکھنے کا نام ہے عید
دل اپنا دلدار بنا لے عید ہے آج
ویرانوں میں کانٹے چننا کیا معنی
صحرا بھی گلزار بنا لے عید ہے آج
جینا ہے تو سرمستی میں جی ناداں
بے کیفی سرشار بنا لے عید ہے آج
موم سراسر بن جائے گا پتھر بھی
غم کو بھی غم خوار بنا لے عید ہے آج
بنتے بنتے بنتی ہے پہچان کوئی
شائستہ معیار بنا لے عید ہے آج
امیدوں کی کشتی جس سے پار لگے
مل کے وہ پتوار بنا لے عید ہے آج
لفظ لفظ سے جھلکے ارشدؔ خوش رنگی
تابندہ اشعار بنا لے عید ہے آج
مسکرانا عید ہے
ظلمتوں میں جگمگانا عید ہے
رنج میں بھی مسکرانا عید ہے
اپنی ساری رنجشوں کو توڑ کر
ملنا اور ہنسنا ہنسانا عید ہے
جلوہ جلوہ عید کا یہ بول اٹھا
زندگانی کا فسانہ عید ہے
بے گماں ، زندہ دلی کا آئینہ
حوصلوں کو آزمانا عید ہے
حسن کی رعنائیاں ، رنگینیاں
عشق کا رنگیں زمانہ عید ہے
جلوے جلوؤں پر نچھاور ہو گئے
کس قدر موسم سہانا عید ہے
صرف ارشدؔ دوستی کو یاد رکھ
دشمنی کو بھول جانا عید ہے
شرحِ نشاط
یوں مہکنے لگے سلسلے عید کے
پھول چہروں پہ جیسے کھلے عید کے
ہر طرف مسکرانے لگی زندگی
غم بھی پانے لگے ہیں صلے عید کے
بھولے بسرے سبھی یاد آنے لگے
کیسے دلکش ہوئے سلسلے عید کے
یار تو یار ، اغیار بھی مل گئے
بھول کر سارے شکوے گلے عید کے
زہر بھی آج تریاق سا بن گیا
خار بھی پھول بن کر ملے عید کے
بن گئی ہے بہر طور شرحِ نشاط
غم کی خاطر مگر لب سلے عید کے
جن کو ارشدؔ ملے غم خوشی کے عوض
ان لبوں پر ہیں شکوے گلے عید کے
++++