ارشد مینا نگری
عید کی کیا بات ہے
نظر نظر میں جلوؤں کی بارات ہے
نفس نفسمیں خوشبوؤں کا ساتھ ہے
ہاتھ ہاتھ میں اک دوجے کا ہاتھ ہے
عید ہے یہ ، عید کی کیا بات ہے
فضا فضا ہے مہکی مہکی کیا کہنے
ادا ادا ہے بہکی بہکی کیا کہنے
نوا نوا ہے چہکی چہکی کیا کہنے
دن سے بھی پرنور اس کی رات ہے
عید ہے یہ ، عید کی کیا بات ہے
آنسو آنسو مسکانوں میں کھو گیا
آناً فاناً داغ دلوں کے دھو گیا
ظلمت ظلمت جیسے اجالا ہو گیا
جیت خوشی کی اور غموں کی مات ہے
عید ہے یہ ، عید کی کیا بات ہے
پیاری پیاری قیمتی سوغات سے
ہمدردی کے لاقیمت جذبات سے
فطرہ ، زکٰوۃ و صدقہ و خیرات سے
سکھ والوں کا سکھ ، دکھیوں کے ساتھ ہے
عید ہے یہ ، عید کی کیا بات ہے
دشمن سے بھی یار کے جیسی مل جائے
چاہنے والے دل پر جیسے دل جائے
کانٹوں میں بھی پھول کے جیسی کھل جائے
اس کی نظر میں ذات ہے نہ پات ہے
عید ہے یہ ، عید کی کیا بات ہے
بول ، خوشی کے جیسا کوئی بول نہیں
ہیرے کا بھی اس کے برابر تول نہیں
یہ وہ خوشی ہے جس کا کوئی مول نہیں
رب کی ارشدؔ قیمتی سوغات ہے
عید ہے یہ ، عید کی کیا بات ہے
+++