ارشد مینا نگری
عید آئی ہے
(بم دھماکوں کے تناظر میں)
آنسوؤں میں خوشی سمائی ہے
وحشتوں میں بھی خوش نمائی ہے
خارزاروں میں پھول لائی ہے
عید آئی ہے عید آئی ہے
درد ہے راحتوں کے پردوں میں
گرد ہے دلنشین جلوؤں میں
سرد آہوں کا رنگ شعلوں میں
چوٹ ہر چوٹ مسکرائی ہے
عید آئی ہے عید آئی ہے
یوں دھماکوں کا لاوا پھو ٹ گیا
دلہنوں کا سہاگ لوٹ گیا
رشتے ناطوں کا ساتھ چھوٹ گیا
ڈوب کر خون میں نہائی ہے
عید آئی ہے عید آئی ہے
باوفائی پہ یوں ہوئی ہے جفا
بے گناہی پہ رو پڑی ہے سزا
زندگانی پہ چھا گئی ہے قضا
پھر بھی رسمِ خوشی نبھائی ہے
عید آئی ہے عید آئی ہے
مترنم صدا ، فضا کی بھی
متکلِم ہوئی ، خموشی بھی
متبسِّم ہوئی اداسی بھی
واہ کیا خوب دلکشائی ہے
عید آئی ہے عید آئی ہے
اس سے بہتر کوئی مثال نہیں
اس سے بڑھ کر کوئی کمال نہیں
اس سے دلبر کوئی جمال نہیں
آنسوؤں کی ہنسی اڑائی ہے
عید آئی ہے عید آئی ہے
مدتوں بعد آیا ایسا دن
محفلوں میں طرب ، طرب کے بن
دھڑکنوں میں ہیں سسکیاں لیکن
لب پہ ارشدؔ غزل سرائی ہے
عید آئی ہے عید آئی ہے
+++