غزل
جیسے ہی فکِر ہم نے غزل پہ حصار کی
تصویر چھلکنے لگی کاغز پہ یار کی
وہ شوخ اداے ٔ وہ بلا ے ٔ وہ بانکپن
مدہوش کر رہی تھی نگاہیں خمار کی
چہرے کا نو ُر ایسے ملا جا کے ہو ُر سے
جنّت سی لگ رہی تھی ضیا ٔ اس دیار کی
یہ چاشنی میں ڈوبے تیرے پنکھوڑی سے لب
بھوروںٔ کو سکِھاتی ہے اداییٔ نثار کی
اے ٔ بادِ صبا جاکے تُو ظلفوںٔ کو چھیڑ دے
پتجھر کو بھی ملِ جاییٔگی آمد بہار کی
اُن مست نگاہوں میں یہ دیکھ رہا تھا
ہر بات بنتی دیکھتی تھی میرے شکار کی
حسرت سے جانے کب سے میں راہوں پہ کھڑا تھا
اب جاکے میں نے پایٔ رضا تجھ سے پیار کی
*****************