غزل
ظلمت کے اندھیرے کو مِٹا پاؤ تو جانو
انسان کو انسان بنا پاؤ تو جانو
کاغذ کے تو تم پھول کِھلا لو گے ہی لیکن
اُس پھول میں خوشبوں جو اگر لاؤ تو جانو
تاریکی مِٹانے کو تو جوگنو ں بھی مِٹادے
سورج کی مگر ایک کرِن لاؤ تو جانو
سُلجھے ہو رستے سے گُزرتے تو سبھی ہیں
اُلجھے ہوے ٔ رستے سے گُزر جاؤ تو جانو
بربادی جو گر چاہو سمندر بھی مِٹادو
شبنم کی جو ایک بوند بنا پاؤ تو جانو
پانے کی تو منزل کی بڑی چاہ رکھی ہے
منزل کو اپنے در پہ ہی لے آؤ تو جانو
جانے کو تو تم چاند پہ بھی جا ہی چکے ہو
چوکھٹ پہ ستِارے کو بُلاپاؤ تو جانو
نعمت تو ہزاروں ہیں تیرے نوش کو لیکن
خود بھوک میں بھوکے کو کھلِا پاؤ تو جانو
یوں چاک گریباں تو پھرا کرتے سبھی ہیں
اصغرؔ سہ جو دیوانہ دیکھا پاؤ تو جانو
*****************