غزل
(ظلف)
آج ساون کی جو بد مست گھٹا چھایٔ ہے
میرے معشوق کی ظلفوں نے لی انگڑایٔ ہے
کھول د و ظلف گھٹاؤں کو بکھر جانے دؤ
تیری ظلفوں کو تو لہرانے صبا آیٔ ہے
ایک ارماں لییٔ ظلفوں کی تیرے ساے ٔ میں
گر گزر جاے ٔ یہ دنیا تو سوا آیٔ ہے
راس آیا ہے مجھے عشق کا موسم ہر سوُ
تیری ظلفیٔں بھی مجھے دیکھ کے شرمایٔ ہے
چاند سہ چہرہ نگاہوں میں میری یوں ہے بسا
ظلف جیسے کے گھٹاؤں میں چھُپا لایٔ ہے
مجھکو تو ہوش ربایٔ کا بھر م ہو نے لگا
چھو ُ کے بالوں کو تیری جو مجھ تک یہ ہوا آیٔ ہے
دامنِ عشق تو کوتاہ ہے بر سوں سے مگر
عشق کی وادی تو ظلفوں کو ہی راس آیٔ ہے
میں نے چاہا تو بہت دامن کو سمیٹے رکھّوں
پر تیری ظلف میرے عشق کو گوند آیٔ ہے
میرے محبوب بچے گا نہ کسی سو ُ اب توُ
دوش پہ ظلفوں کا لہرا نہ صدا لایٔ ہے
بھیگے گیسوں سے تیر ے ایسا گُما ہوتا ہے
ظلف جیسے کیٔ موتی کو پیر ٔو لایٔ ہے
کیسے تاریف کرے ظلف کی تیرے اصغرؔ
ایک چھوٹی سی زباں بات بڑی آیٔ ہے
*****************