* میخانۂ ازل میں، جہانِ خراب میں *
غزل
٭……اصغر حسین اصغرؔ گونڈوی
میخانۂ ازل میں، جہانِ خراب میں
ٹھہرا گیا نہ ایک جگہ اضطراب میں
اُس رخ پہ ہے نظر ، کبھی جامِ شراب میں
آیا کہاں سے نورشبِ ماہتاب میں
اقلیم جاں میں ایک طلاطم مچا دیا
یُوں دیکھئے تو کچھ نہیں تارِ رباب میں
اے کاش میں حقیقت ہستی نہ جانتا
اب لطفِ خواب بھی نہیں احساسِ خواب میں
میری ندائے درد پہ کوئی صدا نہیں
بکھرا دئیے ہیں کچھ مہہ و انجم جواب میں
اب کون تشنگانِ حقیقت سے یہ کہے
ہے زندگی کا راز تلاشِ سراب میں
اصغرؔ غزل میں چاہئے وہ موجِ زندگی
جو حُسن ہے بُتوں میں جو مستی شراب میں
|