* یہ اور بات کہ ہم کم سے کم سمجھتے ہیں *
غزل
یہ اور بات کہ ہم کم سے کم سمجھتے ہیں
مگر سبھوں کو کہاں محترم سمجھتے ہیں
ہماری آنکھ سے آنسو رواں نہیں یونہی
تمہارے غم کو ہم اپنا ہی غم سمجھتے ہیں
بہت حسیں ہے یہ اندازِ گفتگو لیکن
تمہارے چہرے کا تیور بھی ہم سمجھتے ہیں
حقارتوں سے نہ دیکھو انہیں خرد والو!
جو اہلِ دل ہیں بھلا کب وہ کم سمجھتے ہیں
حضور! آپ کی دھمکی سے ہم لرزنے لگے
حضور! آپ میں کتنا ہے دم سمجھتے ہیں
ہمارے حال سے واقف نہیں جہاں تو کیا
ہمارا حال تو شاہِ اُمم سمجھتے ہیں
سدا ہی فکر وہ کرتے ہیں آخرت کی ندیم
کہ جو بھی معنیٔ ملکِ عدم سمجھتے ہیں
اصغر ندیم
141, G.T.Road , Shibpur
Howrah-711102
Mob: 9836111760
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|