غزل
اڑتے اڑتے غبار آیا ہے
وہ جو ناقہ سوار آیا ہے
پھول دامن سے بھر لیا سب نے
میرے حصّے میں خار آیا ہے
میں تو ہوں پیکر وفا لیکن
کب انہیں اعتبار آیا ہے
آینہ دیکھ کر سنورنا کیا
دیکھ کر تم کو پیار آیا ہے
اس موبایل کے دور میں اصغر
آی چٹھی نہ تا ر آیا ہے
اصغر شمیم
***************