* وقت کے ماتھے پہ آجائے شکن ایسا نہ ہ *
غزل
وقت کے ماتھے پہ آجائے شکن ایسا نہ ہو
وقت کے تیور بدل جائیں تو پھر کیا کیا نہ ہو
سب طلسماتِ نظر ہیں ، سب کرشمے عقل کے
ہم کو ہے اس کا یقیں جس کو کبھی دیکھا نہ ہو
گھر سے باہر جائوں تو رہتا ہے کھٹکا سا لگا
میں یہاں ہوں اور میرے گھر کوئی آیا نہ ہو
آج بھی کھڑکی میں دو جلتے دیے ہیں منتظر
پھر خیال آتا ہے تم نے دل کو بہلایا نہ ہو
موتیوں نے کس طرح آنچل بھگویا ہے مرا
اُس کو کیا معلوم جس نے کوئی غم پالا نہ ہو
چند جملے آپ کے تسکیں کا تو ساماں ہوئے
دل کو ہے دھڑکا مگر ایسا نہ ہو ویسا نہ ہو
ڈر رہے ہیں لوگ اشرفؔ ہو رہے ہیں مشورے
کل کہیں خرگوش ، کچھوے کا وہی قصہ نہ ہو
(پروفیسر) اشرفؔ رفیع
H.No.17-7-106,
Yaqutpura, Hyderabad (A.P)
Mob: 9848207794
Ph: 040-24577753
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++ |