* ہجر میں آنکھ کو تر چھوڑ دیا *
غزل
ہجر میں آنکھ کو تر چھوڑ دیا
میں نے خوابوں کا سفر چھوڑ دیا
جیسے دریا نے کنارہ چھوڑا
ویسے میں نے وہ نگر چھوڑ دیا
شہر کا شہر ہے سناٹے میں
کیا پرندوں نے شجر چھوڑ دیا
ایک دُنیا کو بنایا اور پھر
شعبدہ گر نے ہنر چھوڑ دیا
اب کسی یاد سے اُلجھوں گا نہیں
میں نے تنہائی کا در چھوڑ دیا
جس تمنا کی اُداسی تھی سلیم
کس تمنا میں نگر چھوڑ دیا
****** |