غزل
دل کو ساگر آنکھوں کو دریا کر دے
جتنا پانی دے اتنا پیاسا کر دے
تیرے سوا میں اور کسی کے گُن گائوں!
چھین لے میرا نطق مجھے گونگا کر دے
گردن گردن پانی آ پہنچا ، لیکن
تو چاہے تو ساگر کو صحرا کر دے
بھول گیا ہوں تجھ کو تیرا مجرم ہوں
اور سزا دے اور مجھے رسوا کر دے
چھوٹی پونجی میری اور بازار بڑا
دنیا کا سودا مجھ پر مہنگا کر دے
جاگوں تو بے انت دشائیں ہوں میری
سویا ہوں میرا سپنا سچا کر دے
*****