غزل
گاہے گاہے پربتوں کے پار بھی جھانکا کرو
اپنی حد سے اپنے قد سے اپنا سر اونچا کرو
رخ نہ بدلیں گے کبھی دریا پیاسوں کے لئے
دور دریائوں سے رہ کر ہونٹ مت چاٹا کرو
یا تو پرچھائیں سے اپنی خوف کھانا چھوڑ دو
یا ہمیشہ اپنا سورج سامنے رکھا کرو
بھیک میں کچھ منعکس کرنیں تو مل ہی جائیں گی
لے کے سورج کا پیالہ روشنی مانگا کرو
شوق سے پھیرو ہمارے زخم پر دستِ شفا
لیکن اے چارہ گرو ناخن بھی کٹوایا کرو
دائروں کی قید سے آزاد نقطوں کی طرح
تم بھی اپنے آپ سے نکلو تو جانے کیا کرو
****