غزل
حیرت تو یہ نہیں ہے کہ خنجر اسی کا تھا
حیرت یہ ہے کہ تن سے جدا سر اسی کا تھا
یہ بھی غلط نہیں کہ وہ پیاسا ہی مر گیا
یہ بھی ہے سچ کہ سارا سمندر اسی کا تھا
شیشے کے گھر میں تھا وہ مگر لوگ کہتے ہیں
چھت پر گرا جو آکے وہ پتھر اسی کا تھا
ہم رزم گاہ میں تھے اکیلے کھڑے ہوئے
سالار اس کے ساتھ تھا لشکر اسی کا تھا
ہم کوہکن ہی رہ گئے شیریں اسے ملی
تدبیر ہم نے کی تھی مقدر اسی کا تھا
*****