غزل
بے سبب گرد سفر منہ پہ ملیں کس کے لئے
کوئی منزل پہ نہیں ہے تو چلیں کس کے لئے
کوئی، پتھر ہی سہی، پھینکنے والا بھی تو ہو
ہم کسی شاخ تمنا پہ پھلیں کس کے لئے
آج ہر ذہن پہ طاری ہے بگولوں کا جنوں
ہم اصولوں کے سبک پنکھ جھلیں کس کے لئے
صورتیں سنگ صفت ، سنگ ادا بینائی
آئنے کانچ کے پیکر میں ڈھلیں کس کے لئے
سامنے سے کوئی رستہ بھی تو گذرے اسلمؔ
اپنی چوکھٹ پہ دیا بنکے جلیں کس کے لئے
****