غزل
کہانی ایسی نہیں واقعہ ہی ایسا ہے
سنا ہی ایسا نہیں ہے، ہُوا ہی ایسا ہے
ہمیں ہی ڈھونڈے گا جب بھی لگے گی پیاس اسے
ہمارے خون کا کچھ ذائقہ ہی ایسا ہے
زمیں سے تا بہ فلک روشنی کا زینہ سا
اُٹھا ہوا کوئی دست دعا ہی ایسا ہے
ہمارے عکس بہت مختلف ہیں چہرے سے
نظر ہی ایسی ہے یا آئنہ ہی ایسا ہے
ندی بھی مانگتے مل جاتی ہم نے مانگی پیاس
مزاج ہم کو خدا نے دیا ہی ایسا ہے
******