غزل
لباسِ گل میں وہ خوشبو کے دھیان سے نکلا
مرا یقین بھی وہم و گمان سے نکلا
ہمارے ساتھ ہی اب آندھیاں بھی چلتی ہیں
یہ طور ہمسفری بادبان سے نکلا
کچھ اس طرح سے بندھے ہیں زمیں کی ڈور سے ہم
کہ خوف گمرہی اونچی اڑان سے نکلا
نقب میں ڈھونڈ رہا تھا فصیل شب میں مگر
مرا غنیم مرے ہی مکان سے نکلا
اب اس کے بعد کوئی راستہ نہ کوئی سفر
قدم حصار زمان و مکان سے نکلا
عجیب کشمکشِ جبر و اختیار رہی
غم حیات اسی درمیان سے نکلا
ندی سے پیاس ملی ہے اسی گھرانے کو
کہ جس کے واسطے پانی چٹان سے نکلا
******