* خون تھوکا شب فرقت میں بسر ہونے تک *
غزل
٭………اسلم راہی
خون تھوکا شب فرقت میں بسر ہونے تک
کیا بتائوں کہ جو بیتی ہے سحر ہونے تک
کہکشاں کی ہیں تیری یاد میں آنکھیں ہر شب
اور کیا چاہئے اب خون جگر ہونے تک
کوئی مہتاب جو چمکا بھی تو بس یوں چمکا
بجھ گیا باعث التفات نظر ہونے تک
اس کہانی کے خدا جانے کہاں ہیں کردار
ہم نے لکھی تھی گھروندے سے جو گھر ہونے تک
دل شکستہ ہوں کے مشکل ہے زمین غالب
جان نکل جائے گی مصرع طرح ہونے تک
٭٭٭٭
|