* بندھے ہوئے ہاتھوں سے قفس کھول رہا *
غزل
٭………اسلم راہی
بندھے ہوئے ہاتھوں سے قفس کھول رہا ہوں
اڑنے کے لئے آج بھی پَر تول رہا ہوں
بے باک سخنور ہوں زباں کھول رہا ہوں
کچھ بولنا مشکل ہے مگر بول رہا ہوں
تجھ سے میرے غمخوار نہ کہنا پڑے مجھ کو
میں اشک ہوں مٹی میں کہیں رول رہا ہوں
دیکھا نہ اسی نے مجھے جس کے لئے اک عمر
ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے کشکول رہا ہوں
میں تجھ سے میری دشمن جاں دوستی کرکے
خود اپنے لئے شہد میں سم گھول رہا ہوں
میں کون ہوں کیا ہوں کہ تجسس میں اجل سے
ہر ایک برس ایک گرہ کھول رہا ہوں
کیا چیز پلادی ہے کہ پھر بھی سارے محفل
ساقی کی طرف ہاتھ کئے ڈول رہا ہوں
منصور ہوں جرأتِ اظہار ہے مجھ میں
میں در پہ بھی دیکھی ہے سچ بول رہا ہوں
تم قدر میری مصر کے بازار سے پوچھو
میں یوسفِ کنان ہوں انمول رہا ہوں
٭٭٭٭
|