* آسودگیٔ قلب و نظر ہے میں کیا کروں *
غزل
آسودگیٔ قلب و نظر ہے میں کیا کروں
یہ اُن کی دوستی کا اثر ہے میں کیا کروں
قبضہ اُسی کا ہوگیا اب میری ذات پر
مجھ میں وہ چھپ کے محوِ سفر ہے میں کیا کروں
ہر وقت تو ہی تو ہے نگاہوں کے سامنے
پھر بھی یہ تشنگیٔ نظر ہے میں کیا کروں
تزئینِ زندگی میں کٹی زندگی تمام
اب ساتھ میرے شمس و قمر ہے میں کیا کروں
ہر سمت دشمنوں کا عجب اژدہام ہے
ہر دل میں دشمنی کی لہر ہے میں کیا کروں
وعدہ تو اُن سے ملنے کا اسریٰؔ ہے آج بھی
باہر کڑی ہے دھوپ ، شرر ہے میں کیا کروں
اسریٰؔ منظور
H.No. 20-5-182
Quazipura
Hyderabad-500065
Mob: 9985078461
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|