* اب ہمارے درمیاں کچھ نہ کچھ تو ہے جن *
اب ہمارے درمیاں کچھ نہ کچھ تو ہے جناب
یہ نظر کی کہکشاں کچھ نہ کچھ تو ہے جناب
چاہتوں کے دیپ تو جل رہے ہیں اس طرف
اُس طرف بھی یہ دھواں کچھ نہ کچھ تو ہے جناب
نارسائی کا گِلہ کر سکے نہ جن سے ہم
آج وہ ہیں خود رِساں کچھ نہ کچھ تو ہے جناب
مستقل گریز پا، کس لئے ہوئے ہیں آج
اس قدر وہ مہرباں کچھ نہ کچھ تو ہے جناب
آ رہی ہے رت وہی اوّلیں ملاپ کی
جب کہا تھا اب یہاں کچھ نہ کچھ تو ہے جناب
دھڑکنوں کی لے پہ بھی پوچھنے لگا صفی
آج دل یہ بے زباںکچھ نہ کچھ تو ہے جناب
|