* زخم اپنا نشان چھوڑ گیا *
غزل
زخم اپنا نشان چھوڑ گیا
اِک کسک بدگمان چھوڑ گیا
دل میں ویرانیا ں ہیں خوف ذدہ
کون خالی مکان چھوڑ گیا
اُڑ گیا گھونسلہ ہوا میں مگر
خارو خَس کا جہان چھوڑ گیا
گھر کی دہلیز رو رہی تھی، جہاں
کوئی اک بے زبان چھوڑ گیا
پردہئِ شَب افق کے پار تھا، جب
آٖٓفتا آسمان چھوڑ گیا
دشت ِ عِصیاں میں رَہ نُما تھا ، عدو
ہم جو بھٹکے تو جان چھوڑ گیا
اپنے سائے سے جا ملا تھا بدن
جب پرندہ اُڑان چھوڑ گیا
تیر اطہر ہدف کو چُھو نہ سکا
خوف لیکن نشان چھوڑ گیا
اطہر جعفری
**** |