* ہمیشہ دھیرے دھیرے تیرگی کا دم ن *
غزل
ہمیشہ دھیرے دھیرے تیرگی کا دم نکلتا ہے
سویرا پردہئِ شب سے بہت مدہم نکلتا ہے
رخ ِ گُل، آئینہ بن کر ، نہ ہو عکاس سورج کا
بقائے حسن ِ گل کو ہی دم ِ شبنم نکلتا ہے
نجانے پر سکوں رہتا ہے وہ آغوش میں کس کی
کہ طوفاں جب نکلتا ہے بہت برہم نکلتا ہے
تغّیر جام ِ فِطرت ہے ، مسلسل پی رہے ہیں ہم
نہ ہو ترسیل گر اسکی تو کیسے دَم نکلتا ہے
سلگتے دشت ِ الفت میں ہوں پتھر منتظر آنکھیں
تو آنسو چشم ِ عاشق سے کہاں پرنم نکلتا ہے
بدلتے موسِموں سا ہے مزاج ِ یار کیوں اطہر
کہ ہر موسِم سے موسِم مختلف ، پیہم نکلتا ہے
اطہر جعفری
|