* سَر بَستہ راز کھول دے اب کائنا *
غزل
سَر بَستہ راز کھول دے اب کائنات کے
ہم کب سے مُنتظر ہیں ترے اِلتفات کے
کر آنکھ کو عطا تُو مری، اوج طُور سا
جلوے وہ ہم بھی دیکھ لیں کچھ تیری ذات کے
نظریں تو دیکھتی ہیں وہی، سامنے ہے جو
ذرّوں میں ہیں اشارے نِہاں شش جہات کے
اک دوسرے کو کھینچ رہے ہیں نجوم کیوں
موجب مری زمیں پہ ہیں وہ حادثات کے
پابند حکم ِ کُن فیکوں کی ہے موت بھی
ڈانڈے ملے ہوئے فنا سے ثَبات کے
سب کو یاں جام ِ زیست مِلا کب بھرا ہوا
فیاض میکدے ہیں یہاں پر ممات کے
بے رنگ ہیں یہ اصل میں سب، زندگی کے رنگ
پانی سے سارے رنگ ہیں اطہر حیات کے
اطہر جعفری
|