* زخم آ کر ِمرے سیئے اُسنے *
غزل
زخم آ کر ِمرے سیئے اُسنے
قرض سارے ادا کیئے اُسنے
رکھ کے غُنچوں میں حُسن ِ نادیدہ
اپنے جلوے دِکھا دیئے اُسنے
خالی نظروں سے دیکھنا اُسکا
جام خالی عطا کیئے اُسنے
فاصلہ ہو رہا تھا کم شاید
ہاتھ مجھ سے چھڑا لیے اُسنے
روشنی زُہد کی علامت ہے
چاند کو داغ دے دیئے اُسنے
اُسکی آ نکھوں میں غور سے دیکھا
کتنی باتیں کی ِبِِن کیئے اُسنے
حُسن ہارے نہ وقت سے اطہر
پھول ، کلیوں میں رکھ دیئے اُسنے
اطہر جعفری
|