* خود پر گو ِ نگہ میری کئی بار گ *
غزل
خود پر گو ِ نگہ میری کئی بار گئی ہے
لیکن وہ کہاں مثل ِ خریدار گئی ہے
ہر گام تماشائی نگاہیں تھی مجازی
دنیا سے حقیقت بڑی بیزار گئی ہے
دنیا جو ِ عبارت رہی قرطاس ِ جہاں پر
تزئین ِ حواشی یونہی بیکار گئی ہے
جلنے دے وہاں سائے کو بے فیضی پہ اپنی
اشجار سے کچھ دھوپ جہاں پار گئی ہے
بیٹھے ہیں وہاں تاک میں خونخوار شکاری
معصوم پرندوں کی ِجدھر ڈار گئی ہے
عزت کی وہ اب کھائیں گے روٹی، جو تھے بھوکے
ماں ایسا ہی کچھ بیچنے بازار گئی ہے
اجسام سے روحوں کی ملاقات ہے ، ہستی
اطہر یہ ملاقات ہمیں ما گئی ہے
اطہر جعفری
|