* کوئی مکین سر ِ لا مکاں نہیں دی *
غزل
کوئی مکین سر ِ لا مکاں نہیں دیکھا
کسی مقام پہ اُسکا نِشاں نہیں دیکھا
وَرائے شہر ِ خموشاں قضا تھی الُجھن میں
کہ رفتگاں کو وہاں رفتگاں نہیں دیکھا بس ایک بار شکایت کی دھوپ کی میں نے
پھر اُس کیبعد کوئی سائباں نہیں دیکھا
زمین ہے یہ گھروندہ ، تُو دائمی سمجھے
کہ تو نے نِیست کا دریا رواں نہیں دیکھا
بھٹک رہے ہوں جہاں شُتر ِ بے مہار اتنے
کسی شمار میں واں سارباں نہیں دیکھا
ترے بغیر گزاری ہے زندگی ہم نے
مگر اِس آنکھ نے تُجھکو کہاں نہیں دیکھا
یقیں محال یقیناً ہے با ہمی ہر سُو
کسی کو اُن سا مگر بدگماں نہیں دیکھا
وہ کیسے جانے کہ اس دل پہ کیا گزرتی ہے
کسی کو ہم نے کسی پر عیاں نہیں دیکھا
گھروں کو ڈھونڈنا آسان ہی رہا اطہر
کسی مکان سے اُٹھتا دھواں نہیں دیکھا
اطہر جعفری
|